تجربات اور نئی نسل
- Tirmazi Syed
- Jan 9, 2021
- 2 min read
پوری جوانی اور پونی نظر کھونے کے بعد جو چیز انسان کے ہاتھ لگتی ہے اس کو یار لوگ تجربہ کہتے ہیں ۔ تجربہ ایسی ظالم چیز ہے جو اگر تلخ ہو تو بال کے ساتھ خون بھی سفید کر دیتا ہے۔ انسان بھی کتنا بے بس ہے کہ جب زندگی کے دھوکوں کو دھوکہ دینے کے قابل ہوتا ہے تب تک اس کے تمام حواس اسے دھوکہ دے چکے ہوتے ہیں۔ ہم انسانی قبیلے کے لوگ فطرتاً جلد باز واقع ہوۓ ہیں۔ ہمیں آج، ابھی، اور اسی وقت وہ سب کچھ چاہیے جو کسی کی سالہا سال کی ریاضت کا نتیجہ ہوتا ہے۔ تلخ تجربات کی بھٹی میں کندن ہوۓ افراد یا تو بہت اکھڑ مزاج ہوتے ہیں یا اپنے اندر جذبات کا ایک سمندر سموۓ ہوتے ہیں اور ایسے سمندر سے جو بھی ٹکراتا ہے وہ ان کے جوار بھاٹے کے بھنور میں پھنس کر اپنا آپ گنوا بیٹھتا ہے۔ انسانی زندگی کا ایک دلچسپ پہلو یہ بھی ہے کہ" جس کا تجربہ، اس کو ساجھے "۔ ایک شخص کا کمایا ہوا تجربہ صرف اسی شخص کیلئے قابلِ عمل ہوتا ہے، جب کہ دوسروں کیلئے وہ چند جامد اور فرسودہ خیالات کے مجموعے کے سوا کچھ بھی نہیں۔ سب سے خطرناک صورت حال تب ہوتی ہے جب یہی تجربات کا نچوڑ اگلی نسل میں نچوڑنے کی کوشش کی جاتی ہے اور ان پر اپنے نظریات تھونپ دیے جاتے ہیں۔ اس کے نتیجے میں نئے خون میں ایک بغاوت جنم لیتی ہے اور اسکو سامنے والا شخص قرونِ وسطیٰ کا کوئی سفیر لگتا ہے۔ تلخ تجربات کا حامل شخص ایک بے لچک طبیعت کا حامل شخص ہوتا ہے جو کہ نئی نسل کے خیالات کا اتنا ہی بڑا نقاد ہوتا ہے جتنا کسی دور میں اُسکا باپ اُسکے خیالات کا رہا ہوتا ہے اور مزے کی بات یہ ہے کہ زمانے کے تھپیڑوں نے اُسے یہ سب کچھ بھلا دیا ہوتا ہے۔
تجربات چاہے تلخ ہوں یا خوشگوار، انکو نئی نسل کے اذہان میں انڈیلنا بھی ایک فن ہے اور جو یہ فن جان جاتا ہے وہ ایک ریفارمر کہلاتا ہے۔ ایسے ہی ایک ریفارمر کی اِس معاشرے کو اشد ضرورت ہے۔ اس قوم کے بوڑھوں کا اس قوم کے بچوں کے لئے یہ احسانِ عظیم کافی ہوگا کہ وہ ان کو مشکل حالات میں جینے کا وہ ہنر ضرور سِکھا کر جائیں جس نے انکو مشکل معاشی حالات میں نہ صرف زندہ رکھا بلکہ اُن کامیابیوں سے ہمکنار بھی کیا جن سے آج کی نسل بےبہرہ ہے۔
تحریر: ایچ-اے ترمذی
Comments